واٹسن گل،
نیدرلینڈز:11-11-2013

لیاری گینگ وار اور بغدادی کے علاقے سلاٹر ہاؤس کے گمنام مسیحی۔ سلاٹر ہاؤس میں رہنے والے مسیحی جن میں زیادہ تعداد صفائ کا کام کرنے والون کی ہے۔ یہ غریب مسیحی لیاری گینگ وار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں مگر اس بات کا نہ تو کسی میڈیا نے کوئ زکر کیا اور نہ ہی کسی سیاستدان کو توفیق ہوئ کہ اس جانب بھی توجہ دلائ جایے۔ یہ علاقہ پرانے لیاری سے تلعق رکھتا ہے اور اس علاقے میں مسیحی مسیحی کئی پُشتوں سے آباد ہیں۔ یہ کراچی میٹروپولٹن کارپوریشن نے تعمیر کیا تھا جو کہ لگ بھگ سو سال پرانا ہے۔ عرصہ دراز سے ایک بڑی تعداد مسیحوں کہ اور چند ہندوں خاندان بھی آباد ہیں۔ یہ سب کے ایم سی کے ملازم ہیں اور پاکستان کے غریب اور مزدور طبقے سے تلعق رکھتے ہیں۔ اس علاقے میں پانچ چرچ اور دو مندر بھی ہیں۔

لیاری گینگ وار تو کافی عرصے سے ہو رہی تھی۔ مگر مسیحی اس کا نشانہ 2008 سے بننا شروع ہوئے جب اس علاقے میں طالبان اور دوسرے دہشتگرد شامل ہو گئے۔ اس گینگ نے 2008 میں پہلے ایک مسیحی وکٹر ویلئم کو قتل کیا پھر اس سال یوسف اقبال، الیاس جوجہ،یونس عنایت کو بھی قتل کر دیا۔ اس علاقے کے ارد گرد دہشت گردوں نے اپنے اڈے بنالیے۔ یہ گینگ جو کہ منشیات فرشی، اسلحہ فروشی میں ملوث تھی مسیحوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ انہوں نے تو ان مسیحوں سے بجلی، پانی اور گیس کے بل لینے شروع کر دئے۔ پھر مسیحی لڑکیوں کو بھی اغواہ کر کے ان کی عزت خراب کرنے جیسے واقعات ہونے لگے جس سے خوفزدہ ہو کر یہ لوگ اپنے آبائ گھروں کو چھوڑ کر جانے لگے۔ وہاں کے بہت سے مقینوں کا یہ خیال ہے کہ یہ سب پولیس کے ساتھ مل کر ایک سازش کے زریعہ کیا گیا۔ کچھ مسیحی لڑکیاں اغواہ ہوئ مگر آج تک ان کا کوئ سراغ نہی ملا۔ یہ مسیحی بے یارومددگار اس علاقے کو چھوڑ کر عیسئی نگری، اخترکالونی، کشمیر کالونی، اعظم بستی، اعظم ٹاؤن اور قیوم آباد کی طرف منتقل ہو گئے۔

مجھے سمجھ نہی آتا کہ اتنی بڑی تعداد میں مسیحوں کی نقل مکانی پر کوئ آواز نہی۔ کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ غیر تو غیر اپنے مزہبی، سماجی اور سیاسی لیڈرز کہا مر گئے۔ ارے کوئ ہے جو ان کی آواز سنے،