لندن(رپورٹ:سعیدنیازی)توہین رسالت کے الزام میں سزاپانے والی مسیحی عورت آسیہ بی بی کی دادرسی کے لئے جانے والے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیرکو نہ صرف اپنے ہی محافظ نے گولیوں سے چھلنی کردیا بلکہ مولویوں نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکارکردیا۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ سب سے بڑے صوبے کے گورنرکو دن دھاڑے درجنوں افرادکی موجودگی میں قتل کرنے والے محافظ ممتاز قادری کے خلاف پولیس کے سواکورٹ میں کسی نے گواہی تک نہیں دی اور وکلاء نے ان کی پیروی کرنے سے معذرت ظاہر کردی۔ جب جج نے ممتاز قادری کو گورنر کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تو اس کو خود ملک سے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ گورنر پنجاب کو اپنے ان ریمارکس کے سزادی گئی جن میں انہوں نے کہا تھا کہ اگروہ ایک مظلوم عورت کی مدد نہیں کرسکتے تو ان کی گورنری کا کیا فائدہ؟ اس سلسلے میں کلمہ کفر اور گورنر آف پنجاب کے عنوان سے ہفتہ کی دوپہر بی بی سی ریڈیو 4 پر دستاویزی ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اون بینا جون کی اس پیشکش کے فنکاروں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل سے قبل اور بعد کے حالات کے بارے میں صوتی اثرات سے حقیقت کا رنگ بھرا۔ ڈرامہ کے دوران سلمان تاثیر کے دوستوں اور صحافیوں کے تبصرے بھی شامل تھے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ایک مسیحی خاتون جسے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنا دی گئی تھی مدد کرنے اور اپنے خلاف دیئے گئے فتوؤں کا مذاق اڑانے پر ان ہی کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس کے ایلیٹ فورس کے جوان ممتاز قادری نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مسلم معاشرے میں رہنے والی غیر تعلیم یافتہ عورت بھلا کیسے توہین رسالت کی مرتکب ہو سکتی ہے اگر میں اس عورت کو انصاف نہیں دلا سکتا تو پھر مجھے گورنر کے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ممتاز بزنس مین سلمان تاثیر جب اپنی فیملی کے ہمراہ عید کی تعطیلات گزارنے مری جا رہے تھے تو انہوں نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنائے جانے کی خبر سنی تھی تو انہوں نے اسی وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری کو فون کرکے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی درخواست کی تھی اور پھر ان کی مرضی سے آسیہ بی بی کی سزا معاف کرانے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا تھا اور وہ ان سے ملنے جیل بھی گئے تھے اور انہیں تسلی دی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں کے تلخ سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک ایسی عورت کی مددت کر رہا ہوں جو خود اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ توہین رسالت کے قانون کو تبدیل ہونا چاہئے یہ انسانوں کا بنایا ہوا کالا قانون ہے، میں صرف انسانیت کی مدد کر رہا ہوں ، میں نے بھی خدا کو جواب دینا ہے اس کے علاوہ مجھے کسی کی پروا نہیں۔ ان کے اس موقف کے بعد چند علما نے ان کے خلاف فتوے جاری کئے اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ سلمان تاثیر اکثر اس حوالے سے خود بھی مذاق کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں ایک مقامی صحافی مہر بخاری نے سلمان تاثیر کا انٹرویو کیا جس میں سلمان تاثیر نے کہا کہ توہین رسالت کے حق میں آسیہ بی بی کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ وہ انہیں صرف انصاف دلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں بھی کسی کے خلاف فتویٰ لا سکتا ہوں اور فتویٰ دینے والے خودکش حملہ آوروں کے خلاف فتویٰ کیوں نہیں دیتے۔ انٹرویو کے دوران جس طرح ان سے سوالات کئے گئے وہ اس پر بہت خفا تھے۔ پنجاب ایلیٹ فورس کے باڈی گارڈ ممتاز قادری کے بھائی کے مطابق ممتاز قادری گورنر پنجاب کے خیالات سن کر رنجیدہ ہوئے تھے اور وہ کہتے تھے کہ آخر اعلیٰ حکام اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتے، اس دوران گورنر ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرے اور مساجد میں احتجاج شروع ہو چکا تھا۔ ممتاز قادری نے بھی ایک جلسہ میں مفتی محمد حنیف قریشی کی توہین رسالت سے متعلق جذباتی تقریر سنی۔ گورنر پنجاب کے خلاف احتجاج کے بڑھتے ہوئے سلسلے کو دیکھ کر وزیر داخلہ رحمن ملک نے گورنر پنجاب کو فون کر کے ٹی وی پر آ کر اپنا موقف واضح کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن سلمان تاثیر نے انہیں جواب دیا تھا کہ میں استعفیٰ دیدوں گا لیکن ایسا نہیں کروں گا۔ اس دوران ان کی سیکورٹی میں اضافہ کر دیا گیا تھا لیکن گزشتہ برس 4 جنوری کو جب وہ اپنے ایک ریستوران میں دوست کے ساتھ لنچ کر کے باہر نکلے تو ان کی حفاظت پر مامور ممتاز قادری نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ان پر فائر کھول دیا اور فائرنگ کے بعد گن زمین پر رکھ کر ہاتھ اٹھا دیئے۔ ممتاز قادری نے دوران مقدمہ بھی اس قتل سے انکار نہیں کیا۔ ملک کی مذہبی جماعتیں جو بعض بنیادی مسائل کے حوالے سے بھی آپس میں دست و گریباں رہتی ہیں اس ایشو پر ایک نظر آئیں۔ دستاویزی ڈرامہ کے دوران سلمان تاثیر کے بچپن کے دوست اور رائٹر طارق علی، صحافی عمر وڑائچ، دوست اور رائٹر احمد رشید کے تبصرے بھی شامل کئے گئے تھے۔ احمد رشید کے مطابق انہیں حیرت اس وقت ہوئی جب پتہ چلا کہ گورنر ہاؤس کے مولوی سمیت گردونواح کے مولوی حضرات نے بھی جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسرا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ گورنر پنجاب وفاق کے نمائندہ تھے لیکن ان کے جنازے میں مسلح افواج کے افسران یا بیورو کریسی کے نمائندوں نے شرکت نہیں کی۔ مملکت نے انہیں بھلا دیا تھا۔ مہر بخاری جنہوں نے گورنر پنجاب کا چند روز قبل انٹرویو کیا اور وہ مقتول کی اہلیہ کی شاگرد بھی تھیں جب تعزیت کرنے پہنچیں تو انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا گیا۔ عمر وڑائچ کے مطابق اس قتل کے بعد مہر بخاری نے ایک پروگرام کیا جس میں وہ پوچھ رہی تھیں کہ ممتاز قادری کریمنل ہے یا ہیرو، یہ رویہ میرے لئے قابل حیرت تھا۔ قاتل ممتاز قادری کے والد ملک شبیر اعوان نے اپنے بیٹے کے فعل پر ناز کیا اور کہا کہ اس نے یہ کام اللہ، اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لئے کیا ہے۔ قرآن میں کہہ دیا گیا ہے کہ جو رسول اکرم ﷺ کے خلاف جائے گا وہ واجب القتل ہے۔ ممتاز قادری کے فعل کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے متعدد ریلیاں نکل رہی ہیں اور گھر کے چار کمرے پھولوں سے بھر گئے ہیں، متعدد وکلا نے ممتاز قادری کے دفاع کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیں، ایک وکیل طارق محمود کا کہنا تھا کہ ممتاز قادری نے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ دن دیہاڑے ہونے والے قتل کی اس واردات کے مقدمہ میں پولیس کے علاوہ کوئی عینی گواہ پیش نہ ہوا۔ یکم اکتوبر 2011ء کو ممتاز قادری کو جج پرویز علی شاہ نے موت کی سزا سنا دی لیکن فیصلہ سنانے کے بعد ملنے والی دھمکیوں کے سبب وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 26 اگست 2011ء کو مقتول سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو اغوا کر لیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ آسیہ بی بی جیل میں قید سزائے موت کی منتظر ہیں اگر ان کی سزا پر عمل ہوا تو وہ توہین رسالت کیس میں موت کی سزا پانے والی پہلی خاتون ہوں گی۔